The dangerous anaconda story

The dangerous anaconda story

The country of Iran was ruled by a king named Amir al-Din.

  King Amiruddin and his subjects were very worried for a few days because there was a forest near their estate where there lived an animal bigger than a dragon and dangerous like a dragon whose name was Anaconda -

  He used to swallow every person who came in front of him whole in one gulp and in this way he had made many people there a mouthful of his mouth.


No one could harm her because they were all afraid of her - how many veteran midwives had gradually become -

One day King Amiruddin was worried and consulted the minister - Minister! Advise us what to do? Because this is such a problem that if we do not solve it, one day none of our subjects will be left. will -

One by one everyone will die at the hands of this dangerous Ana Koda - so I must find some solution - to save the innocent lives of our subjects -

The minister said -

Long live the King !

To solve this problem, someone has to put his life in the palm of his hand and confront and kill the anaconda, and then the whole problem will be solved automatically - but this cannot be done by a brave person who has Love and sacrifice for the people inside -

So after listening to the minister's advice, the king announced in his state -

Whoever shall destroy this dangerous Anna Konda, we will forever give his hand in the hand of our daughter - make him the prince of this state -

As soon as Prince Salim, who was the prince of another state, heard the order of Adsha, this announcement of Amiruddin, the king of the kingdom of Iran, reached him.

Prince Salim was very kind and compassionate - when he heard that many people had lost their lives at the hands of the Anaconda, he became very depressed and decided to kill the Anaconda and that too without any greed. -

And when Prince Salim announced that he would go to the country of Iran to fight this dangerous anaconda, there were talks of Prince Salim's bravery and kindness everywhere -

And then Prince Salim left for Iran with all his preparations -

On reaching Iran, he met King Amiruddin and said -

Long live the King !

I have decided to kill this anaconda only to save human lives-

King Amiruddin was very impressed to hear the intentions of Prince Salim -

And then Prince Salim, under the shadow of the prayers of all the people, armed with all kinds of weapons, headed for the forest -

  Anaconda, who was living in a cave, immediately appeared out of the cave when he heard someone's footsteps.

Prince Salim climbed a tree and tightly controlled his weapons, and as soon as the anaconda came out of the cave and opened its huge mouth, it began to look around for prey -

Prince Salim saw that it was thicker and longer than the dragon-

Prince Salim thought that it could not die in a single attack -

To kill it, first its thick and long body should be well wounded -

They think that Prince Salim rained arrows on the anaconda from the top of the tree-

Injured, the Anaconda wandered madly through the forest trying to find its enemy so that it could make its mouthful -

But Prince Salim was sitting in the middle of a thick branch in the height of a big tree, so that the Anaconda was only aware of the rain of spears and arrows from the top of the tree.

The anaconda got angry and uprooted the tree by wrapping its whole body tightly around the tree.

Muhammad Salim The object fell to the ground next to the tree -

Now Prince Salim, as he fell down, struck the Anaconda's neck with his sharp sword, and a terrible gasp came out of the Anaconda's mouth, and he died.

And then Prince Salim cut the Anaconda's body to pieces with the help of his sword -

And then he returned to the palace unhurt -



  All those who saw Prince Salim bravely kill the anaconda -

Prince Salim was praised in front of the king and when he told the king the good news of Anaconda's death, the king was impressed by Prince Salim's bravery and announced -

That today I give half my kingdom and my daughter's hand to Prince Salim-

خطرناک اناکونڈا کہانی 

ملک ایران پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا اس کا نام امیر الدین تھا- 

 بادشاہ امیر الدین اور اس کی رعایا کچھ دنوں سے بہت پریشان تھی کیونکہ ان کی جاگیر کے قریب جنگل تھا کہاں پر اژدھا سے بڑا اور اژدھا جیسا خطرناک جانور رہتا تھاجس کا نام اناکونڈا تھا -

 وہ اپنے سامنے آنے والے ہر بندے کو پورا کا پورا ایک ہی پل میں نگل جاتا تھا اور اس طرح وہ وہاں کے کئی لوگوں کو اپنے منہ کا نوالہ بنا چکا تھا کوئی اس جنگل کا رخ نہیں کرتا تھا- 

کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا کیونکہ وہ سب لوگ اس سے خوفزدہ تھے - اس طرح  آہستہ آہستہ کتنی جانباز آیا ہو چکی تھیں-

ایک دن بادشاہ امیر الدین نے پریشان ہو کر وزیر سے مشورہ کیا -وزیر !ہمیں مشورہ دیں کہ ہم کیا کریں ؟کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اگر ہم اس کو حال نہ کر سکے تو ہماری رعایا میں سے ایک دن کوئی بھی نہیں بچے گا - 

سب ایک ایک کر کے اس خطرناک انا کوڈا کے ہاتھوں سے مرتے چلے جائیں گے - لہذا میں اس کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا چاہیے - تاکہ ہماری رعایا کے بے گناہ لوگوں کی جان بچ سکے - 

وزیر بولا -

بادشاہ سلامت !

اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کسی نہ کسی کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس اناکونڈا کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اس سے مارنا پڑے گا پھر سارا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا - لیکن یہ کوئی بہادر انسان نہیں کر سکتا ہے جس کے اندر لوگوں کے لئے پیار اور قربانی کا جذبہ ہو -

لہذا وزیر کا مشورہ سننے کے بعد بادشاہ نے اپنی ریاست میں اعلان کرایا -

جو شخص اس خطرناک انا کونڈا کو ختم کرے گا ہم ہمیشہ کے لئے اس کا ہاتھ اپنی بیٹی کے ہاتھ میں دے دیں گے - اس ریاست کا شہزادہ بنا دیں گے -

بادشاہکا  حکم سنتے ہی شہزادہ سلیم جو کہ دوسری ریاست کا شہزادہ تھا اس تک بھی ایران کی سلطنت کے بادشاہ امیرالدین کا یہ اعلان پہنچا-

شہزادہ سلیم بہت ہی نیک اور رحم دل تھا -اس نے جب یہ سنا کہ اناکونڈا کے ہاتھوں کئی لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں تو وہ بہت افسردہ ہوا اور ارادہ کر لیا کہ وہ اناکونڈا کو ختم کر دے گا اور وہ بھی بغیر کسی لالچ کے -

اور جب شہزادہ سلیم نے یہ اعلان کیا کہ وہ ملک ایران جاکر اس خطرناک اناکونڈا کا مقابلہ کرے گا تو ہر طرف شہزادہ سلیم کی بہادری اور رحم دلی کے چرچے ہو گئے -

اور پھر شہزادہ سلیم اپنی پوری تیاری کے ساتھ ایران روانہ ہوگیا -

ایران پہنچ کر وہ بادشاہ  امیر الدین سے ملا اور کہنے لگا -

بادشاہ سلامت !

میں اس اناکونڈا کو صرف انسانی زندگیوں کو بچانے کی خاطر مارنے کا فیصلہ کر کے آیا ہوں-

بادشاہ امیرالدین شہزادہ سلیم کے ارادے سن کر بہت متاثر ہوا -

اور پھر شہزادہ سلیم نے بادشاہ سلامت تو سب لوگوں کی دعاؤں کے زیر سایہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر جنگل کا رخ کر لیا -

 اناکونڈا جو ایک غار میں بسیرا کیے ہوئے تھا جب اس نے کسی کے قدموں کی چاپ سنی تو فوری غار سے باہر نمودار ہوا-

شہزادہ سلیم نے ایک درخت پر چڑھ کر اپنے ہتھیاروں کو مضبوطی سے قابو کرلیا اور جیسے ہی اناکونڈا پورا غار سے باہر آیا اور اپنا بڑا سا منہ کھول کر ادھر ادھر شکار تلاش کرنے لگا-

شہزادہ سلیم نے دیکھا کہ اژداھا سے زیادہ اس کی موٹائی اور لمبائی تھی-

شہزادہ سلیم نے سوچا کہ یہ ایک ہی حملے میں نہیں مر سکتا -

اس کو مارنے کے لئے پہلے تو اس کے موٹے اور لمبے جسم کو اچھی طرح گھائل کیا جائے - 

یہ سوچتے ہیں شہزادہ سلیم نے درخت کے اوپر سے اناکونڈا پر تیروں کی بارش کر دی-

اناکونڈا زخمی حالت میں پاگلوں کی طرح جنگل میں ادھر ادھر گھوم کر اپنے دشمن کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا تاکہ وہ اپنے منہ کا نوالہ بنا سکے -

لیکن شہزادہ سلیم ایک بڑے سے درخت کی اونچائی میں ایک موٹی سی شاخ کے درمیان یوں چھپ کے بیٹھا تھا کہ اناکونڈا کو زخمی حالت میں بس اتنا پتہ چلا کے درخت کے اوپر سے نیزوں اور تیروں کی بارش ہو رہی ہے - 

اناکونڈا نے غصے میں آکر اپنے پورے جسم کو درخت کے گرد پوری مضبوطی سے جکڑ کر درخت کو جڑ سے اکھاڑ ڈالا-

محمد سلیم درخت کے ساتھ ہی چیز زمین پر آ گرا -

اب شہزادہ سلیم نے نیچےگرتے ہی سب سے پہلے بڑی پھرتی سے اپنی تیز دھار تلوار کو اناکونڈا  کے گردن والے حصےپر دے مارا اناکونڈا کے منہ سے ایک خوفناک پھنکار نکلا اور وہ مر گیایا -

اور پھر شہزادہ سلیم اناکونڈا کے جسم کے بھی اپنی تلوار کی مدد سے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے -

اور پھر وہ زخموں سے نڈھال واپس محل کی طرف لوٹ گیا - 

 سب لوگوں نے جنہوں نے شہزادہ سلیم کو بہادری سے اناکونڈا کو مارتے دیکھا تھا -

بادشاہ کے سامنے شہزادہ سلیم کی تعریف کیااور اناکونڈا کے مرنے کی خوشخبری بادشاہ کو سنائ تو بادشاہ شہزادہ سلیم کی بہادری سے متاثر ہو کر اعلان کیا -

کہ آج میں اپنی آدھی سلطنت اور اپنی بیٹی کا ہاتھ شہزادہ سلیم کو دیتا ہوں-

Post a Comment

0 Comments